پروگرام میں شرکت کیلئے اپنے برادر نسبتی کو ساتھ لینا تھا‘ گاڑی لےکر وہ پہنچے‘ برادر نسبتی تیسر ی منزل پر رہتے تھے‘ نیچے سے فون کیا تو بہن نے بتایا کہ وہ نہانے کیلئے گئے ہیں‘ بھائی سے اصرار کیا کہ اوپر آجائیں اور چائے پی لیں مگر دوبے صاحب اس خیال سے اوپر نہیں گئے کہ پروگرام میں پہنچنے میں تاخیر ہوجائے گی‘ اس لیے گاڑی میں نیچے ہی انتظار کرنے لگے‘ انہوں نے دیکھا کہ اپارٹمنٹ کے ذرا سے فاصلہ پر ایک مسجد ہے‘ وہاں ایک کے بعد ایک آدمی آرہا ہے‘ خیال ہوا شاید کوئی تقریب ہورہی ہے‘ ڈرائیور سے چند قدم گاڑی آگے بڑھوائی‘ اتوار کا دن تھا‘ وہاں ہفتہ واری اجتماع ہورہا تھا‘ ایک صاحب تقریر کررہے تھے‘ انتظار کی گھڑیاں گزارنے کیلئے وہ تقریر سننے لگے‘ تقریر کرنے والے جماعت کے پرانے ساتھی تھے جو قبر و حشر کی باتیں گویا زمین سے نیچے اور آسمان سے اوپر کی کررہے تھے اور مرنے کےبعد دردناک دوزخ سے ڈرا کر اللہ اور رسول ﷺ کی بات ماننے کی ترغیب بڑی درد مندی اور فکرمندی کے ساتھ دے رہے تھے۔ بہنوئی کے آنے میں تاخیر ہوئی‘ تقریر ختم ہوگئی اور مختصر تشکیل ہوئی‘ دوبے صاحب جو وزارت قانون میں بڑے عہدہ پر فائز تھے‘ گاڑی سے اترے‘ جوتے اتار کر مسجد میں داخل ہوئے اور جو صاحب تقریر کررہے تھے ان سے بولے: جناب کچھ بات معلوم کرنا چاہتا ہوں؟ وہ بولے جی فرمائیے! بولے ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ سورج نکل رہا ہے‘ یہ آنکھیں دھوکہ کھاسکتی ہیں مگر ہمارا یقین ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ نے جو بتادیا ہے اس میں ذرہ برابر شک نہیں ہوسکتا‘ دوبے صاحب بولے: یہ جنت دوزخ اور حساب کتاب کا مسئلہ صرف مسلمانوں کو پیش آنے والا ہے یا سب لوگوں کو۔ وہ بولے یہ تو سب لوگوں کو پیش آنے والا ہے۔ پوچھا: اس مجمع میں کوئی ہندو‘ سکھ یا عیسائی بھی ہے یا سب مسلمان ہیں‘ وہ بولے یہ تو صرف مسلمانوں کا اجتماع ہے۔ دوبے صاحب نے پوچھا: آپ کے محلہ میں مسلمانوں کے علاوہ اور دوسرے لوگ نہیں رہتے؟ یہ میرے بہنوئی کرشنا کمارد ویدی سامنے رہتے ہیں‘ آپ نے ان کو بھی دوزخ کی آگ اور حساب کتاب کے خطرہ سے خبردار کیا‘ وہ بولے ان سے تو بات نہیں ہوئی۔ دوبے صاحب نے کہا: اگر ان کے گھر میں آگ لگ جائے تو آپ گھر کو اس لیے جلتا ہوا چھوڑ دیں گے کہ آگ ہندو کے گھر میں لگی ہے‘ وہ بولےایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ آگ لگے گی تو پورے محلہ کے مسلمان جان پر کھیل کر آگ بجھائیں گے۔ دوبے صاحب بولے یہ پہیلی مجھے سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ اگر دنیا کی آگ ان کی جان میں نہیں مکان میں لگ جائے تو آپ جان پر کھیل کر آگ بجھانے کی بات کررہے ہیں اور آپ کہہ رہے تھے کہ دوزخ کی آگ اس آگ سے سترگنا زیادہ جلانے والی ہے اور بغیر ایمان کے یہ آپ کے پڑوسی اس آگ کی طرف جارہے ہیں‘ آپ نے ایک دفعہ ان سے کہا بھی نہیں کہ دویدی جی آپ اس آگ کی طرف جارہے ہیں‘ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ کے دل میں اس کا یقین نہیں کہ دوزخ کی آگ برحق ہے اور وہ اس آگ سے خطرناک آگ ہے۔
اس کے بعد دوبے جی نے اسلام پڑھنا شروع کیا‘ الحمدللہ! آج نہ صرف وہ ایک مسلمان ہیں بلکہ حقیقی مسلمان اور داعی اور مرنے کے بعد کی آگ پر یقین رکھنے والے اور ہر انسان کو اس سے بچانے کی فکر کرنے والے مگر ان کی یہ بات ہم سبھی کیلئے بڑی آنکھیں کھولنے والی ہے کہ پڑوسی کے گھر دنیا کی آگ لگ جائے تو سب کام چھوڑ کر اسے بجھانے کیلئے جان کی بازی لگادیتے ہیں‘ اس آگ سے ستر گنا آگ کی طرف کفروشرک کے راستہ پر چل کر جانےوالے پڑوسیوں کی ہم فکر کیوں نہیں کرتے! کاش ہمیں ہوش آئے!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں